*🌹 اولاد کی تربیت کیسے کریں؟🌹*
*اولاد میں کوتاہیاں دیکھنا اور خاموش رہنا:*
مثلاً بچے بالغ ہونے کے باوجود نہ نماز پڑھ رہے ہیں ، نہ روزہ رکھا رہے ہیں ، نہ زکوۃ دے رہے ہیں، لڑکیاں پردہ نہیں کر رہی ہیں ، سب آزادانہ زندگی گزار رہے ہیں اور ماں باپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں برائے نام بھی کچھ کہہ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو اپنی ذمہ داری ادا کردی ۔
یاد رکھیے ! ہم نے اپنی ذمہ داری واقعہ ادا نہیں کی ہم نے اس فریضے میں زبر دست کوتاہی کی ، اور برابر کوتاہی کرتے چلے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے گناہوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، حتی کہ اگر ماں باپ کا انتقال بھی ہو گیا ، لیکن اولا د عیاشی میں اور گناہوں میں مبتلا ہے تو اب ماں باپ کے گناہوں میں اس تربیت میں کوتاہی کرنے کے نتیجے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لہذا بچے کے پیدا ہونے سے لے کر بچوں کے مرنے تک ماں باپ نے جو ان کی دینی تربیت نہیں کی اور ان کے جو دینی حقوق تھے وہ ادا نہیں کیے تو اس کے ادا نہ کرنے سے یہ سارا و بال اور عذاب ماں باپ پر آئے گا۔ اس لیے علامہ آلوسی نے فرمایا کہ ایسے ماں باپ کو سب سے زیادہ سخت عذاب ہوگا.
*تربیت میں ستی پر تنبیہ:*
ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جانا ہے ہم پر صرف اپنی ذات کی ذمہ داری نہیں ہے کہ صرف اپنی ذات کو شریعت کا پابند بنا ئیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کے احکام کا پابند بنا لیں بلکہ گھر والوں کی ذمہ داری اور اولاد کی ذمہ داری بھی ہمارے اوپر ہے، اپنے تمام ماتحتوں کی ذمہ داری بھی ہمارے اوپر ہے اور ماتحتوں میں سب سے پہلے بیوی بچے ہیں اور بعض علمائے کرام نے فرمایا کہ ملازم اور نوکر چاکر بھی اس میں داخل ہیں، چاہے وہ ملازم دکان میں کام کرتے ہوں، چاہے وہ گھر میں کام کرتے ہوں، قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ :
اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (جیسے ایندھن ڈالنے سے آگ اور تیز ہو جاتی ہے اسی طرح انسان اور پھر ڈالنے سے وہ جہنم اور تیز ہو جائے گی ) اس جہنم پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو سخت طبیعت کے ہیں تند خو اور مضبوط اور طاقتور ہیں ( کوئی ان کو ہٹا کر اور جہنم سے نکل کر بھاگ نہیں سکے گا ) جو اللہ تعالی ان کو حکم دے دیتے ہیں وہ آس میں اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس چیز کا ان کو حکم دیا جاتا ہے وہ اس کو کر لیتے ہیں۔
*اپنے بچوں سے لاتعلق مت رہیں*
🪷 *وہ کھانا تو پیٹ بھر کر کھارہے ہوتے ہیں۔مگر محبت تعلق اورساتھ کے بھوکے رہ جاتے ہیں۔*
معاشرہ پہلے جیسا نہیں رہا۔
جو دن آپ اپنے بچے سے لاتعلق ہوکر گذارتے ہیں اس دن اسکی عقل پہ دسیوں برے خیالات کا حملہ ہوتا ہے۔اسکی نگاہ برے مناظر پر پڑتی ہے
تو زرا سوچیں کہ جس بچے کو مہینوں تک کسی نصیحت اور تربیتی نشست کا موقع ہی ناملتا ہو۔
*اے ماں اور اے باپ!!*
آپکے بچے کو نت نئے کپڑوں کی ایسی ضرورت نہیں ناہی بڑے جیب خرچ کی ناہی لمبی چوڑی میراث کی۔جتنی ضرورت انکو اس چیز کی ہے کہ آپ انہیں اپنی نگرانی میں اللہ کی محبت کو اور اس عقیدہ کو کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے انکی شخصیت کے خمیر میں ڈال دیں۔
آپ دیکھتے رہیں کہ کونسی نیک خصلتیں آپکے بچے میں موجود ہیں آپ ان انکو پختہ کیجئے اور انہیں بڑھائیے۔
*باپ کو توجہ دینا ہوگی!*
وقت کی کمی کا بہانہ مت بنائیں یہ خود پہ ھنسنے والی بات ھوگی۔
*اس فرض سے پہلو تہی مت* *کیجیئے۔*
*کیونکہ باپ کی چھاپ اور ماں* *کا پیار!!*
*یہ عذر بھی مت تراشئیے کہ آپ انکے لئے رزق کی تلاش میں مصروف ھوتے ہیں کیونکہ بہت برا ہے وہ رزق کہ جسکے نتیجے میں امت کو ایک ایسی نسل ملے کہ جسکے جسم تو خوب تنومند اور توانا ہوں مگر اخلاق پستہ اور کمزور۔*
⭕ *معاشرہ بہت مشکل ہوگیااور بچے بخدا معصوم ہوتے ہیں ہمارے مقابلے میں اس عمر میں اب انہیں بہت زیادہ توجہ درکار ہوتی ہے آج کے فتنے اور آزمائشیں بہت مختلف ہیں۔*
🗯️ *انکے ساتھ کھیلیں اور انہیں ایسے قصے سنائیں کہ جن سے انکی ذات میں عمدہ صفات پیدا ہوں۔*
🪷 *انکی باتیں خوب غور سے سنیں۔*
☘️ *انکی خاطر اپنے موبائل چھوڑ دیا کریں۔*
🌹 *ان بھولے بھالے بچوں کیلئے اپنی کچھ مصروفیات ترک کر دیا کریں۔*
*اپنے جگر کے ٹکڑوں کیلیے پوری دنیا بھی چھوڑ دینی پڑے تو چھوڑ دیں۔*
*رب اغفر لی ولوالدی*
*یہ دعا ان سب فضولیات سے کہیں بڑھ کر ہے کہ جنکے چکر میں آپ انہیں وقت نہیں دے پاتے۔*